فروری 2016کی بات ہے جب جوان صوفیہ جاوید نے بھارتی سرزمین پر 75کلوگرام کی کیٹیگری میں جنوبی ایشیائی باکسنگ چیمپئین شپ جیت کر تاریخ رقم کی اور یوں خواتین کی کیٹیگری میں ایسا کارنامہ سرانجام دینے والی پہلی خاتون بنی اور روایتی حریف ملک میں فتح یاب ہو کر اپنے ملک کے لئے فخر کا باعث بنی۔ انہی کھیلوں میں رخسانہ پروین نے 60کلوگرام کی کیٹیگری میں چند روز کے فرق سے جیتنے والی دوسری پاکستانی خاتون اتھلیٹ ٹھہری۔
صوفیہ جاوید کا تعلق پشاور کے علاقے یوسف آباد کی فادر کالونی سے ہے اور یہ ہیرو وہاں کے رہائشیوں کے لئے فخر کا باعث ہے۔ حتی کہ اس سال فتح کے مقام تک پہنچے کے لئے اس نے بہت زیادہ محنت کی اور قربانیاں دیں لیکن بدقسمتی سے حالات میں تبدیلیوں اور کئی جگہوں سے عدم توجہ کے سبب وہ رفعتوں کے اگلے مقام تک نہ پہنچ سکی۔
پشاور میں اپنے چھوٹے سے گھر میں گفتگو کے دوران صوفیہ نے بتا یا کہ اس تاریخی فتح کے بعد معاملات بہتری کی بجائے مزید خراب ہو گئے اور اس کے لئے مشکلات اور بھی بڑھ گئیں۔
مقامی باکسنگ فیڈریشن اور کوچز نے اُس طرح سے اس کی مدد نہیں کی جس طرح کی اسے امید تھی، جس کے نتیجے میں مستقبل کے بڑے ٹورنا منٹس میں مقابلہ کرنے کے لئے اس کی تربیت و قابلیت میں کمی واقع ہوئی۔مزید براں ناگزیر خاندانی امور کی وجہ سے کھیل جس سے وہ بہت پیار کرتی تھی،اس سے اس کی توجہ ہٹ گئی اور یوں وہ گھریلو امور میں کھو گئی۔
آج صوفیہ اپنی ماسٹر کی ڈگری مکمل کرنے میں مصروف ہے اور بچپن سے اپنی پسندیدہ کھیل ووشو کک باکسنگ کی طرف واپس لوٹ آئی ہے۔ ایک مرتبہ جب کرونا کے باعث عائد ہونے والی پابندیوں میں نرمی آئے گی تو وہ دوبارہ فٹ ہو نے کا ارادہ رکھتی ہے اور نہ صرف وہ اپنے ملک کے لئے وو شو باکسنگ چیمپئین شپ جیتنے کا ارادہ رکھتی ہے بلکہ وہ ان لڑکیوں کو بھی تربیت دے گی جو پیشہ وارانہ طورپر اس کھیل میں دلچسپی رکھتی ہیں۔وہ نہ صرف لڑکیوں کو اپنے پسندیدہ کھیلوں میں آگے بڑھنے کے گُر سکھائے گی بلکہ انہیں حالات اور آگے بڑھنے میں حائل رکاوٹوں سے مقابلہ کرنا بھی سکھائے گی۔
Category: پہلا کے پی |